Friday 5 May 2017

Oath and role models

ارحم کی کلاس دوسری منزل پر تھی اور اس کا بیگ اتنا بھاری تھا کہ اس سے اٹھائے نہیں اٹھتا تھا۔ مجبوراً ہم نے اس کے لئے اسکول کی ایک آیا جی سے بات کی کہ بیگ اوپر لے جانے میں اس کی مدد کر لیا کرے۔ یہ انتظام کچھ عرصہ بخوبی چلتا رہا۔

ارحم ساتویں جماعت میں ہو گیا اور اسے ہاؤس کیپٹن (house captain) کی سیش (sash) مل گئی۔ ساتھ ہی اس کا بیگ مزید بھاری ہوگیا۔ سیش ملنے کے اگلے دن جب میں بچوں کو اسکول چھوڑنے گیا تو ارحم کہنے لگا کہ آج کے بعد وہ اپنا بیگ خود اٹھائے گا۔ میں نے اس وقت بات سنی ان سنی کردی لیکن بعد میں جب اس سے وجہ پوچھی تو کہنے لگا۔ "بابا میں نے ہاؤس کیپٹن کا اوتھ (oath) لیا ہے جس میں لکھا ہے کہ میں باقی بچّوں کے لئے رول ماڈل (role model) بنوں گا۔ اگر میرا بیگ آیا لے جائے گی تو بچّے کہیں گے کہ یہ کیسا رول ماڈل ہے جو اپنا بیگ خود نہیں لے جا سکتا۔" میں نے قدرے حیرانی سے پوچھا۔ "تمہیں اپنا حلف یاد ہے؟" اس نے کہا۔ "جی ہاں، ظاہر ہے۔" اور پھر اس نے مجھے اپنا حلف پڑھ کر سنا دیا۔

میں کافی دیر تک سوچتا رہا کہ جس طرح ایک بچّے کو اپنے اٹھائے ہوئے حلف کا احساس ہے اسی طرح اگر ہماری قوم کے سب عہدیداروں کو اپنے حلف کا احساس ہوجائے تو ہم کہاں سے کہاں پہنچ جائیں اور جس طرح ایک بچّے کو اپنے رول ماڈل ہونے کا احساس ہے اسی طرح اگر ہم بڑوں کو بھی یہ احساس ہو جائے تو ہمارے بچّے کہاں سے کہاں پہنچ جائیں۔ پھر مجھے خیال آیا کہ ارحم تو بچّہ ہے۔ ناسمجھ ہے۔ جب عملی زندگی میں قدم رکھے گا تو اس اخلاقی رومانویت (moral romanticism) سے نکل آئے گا۔ کیونکہ بہرحال ہم بڑے ہیں اور زیادہ سمجھدار ہیں۔

No comments:

Post a Comment